علامہ اقبال اوپن يونيورسٹي، قائد اعظم کلوز يونيورسٹي

0
2085

تحریر: محمد لقمان
قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھنا میرا ہمیشہ سے خواب تھا۔ یکم جنوری 1986 کو جب ایم ایس سی انٹرنیشنل ریلیشنز کی کلاسز کا آغاز ہوا تو مجھے ایسے لگا کہ میں نے زندگی میں معراج حاصل کر لی ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ اب صرف علم کا حصول ہی ہوگا اور کوئی بات نہیں ہوگی۔ مگر وقت گذرنے کے بعد پتہ چلا کہ یونیورسٹی میں سوائے اہل پنجاب کہ ہر علاقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ و طالبات کی ایک الگ کونسل تھی۔ مہران کونسل، خیبر کونسل، بولان کونسل، کشمیر کونسل ، ہزارہ کونسل ان میں سے اہم تھیں۔ ہر مذہبی جماعت کا بازوئے شمشیر طلبہ تنظیم کی شکل میں موجود تھا۔ یہی وجہ تھی کہ لسانی اور مذہبی بنیادوں پر سیاست کی وجہ سے ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں اکثر فسادات ہوتے رہتے ہیں۔ ہاسٹلز بھی مختلف تنظمیوں کے درمیان تقسیم ہو چکے تھے۔ صرف لڑکیوں کا ہاسٹل جو کہ ھاسٹل نمبر فائیو کہلاتا تھا، کافی حد تک اس لعنت سے پاک تھا۔ لڑکوں کے چاروں ہاسٹلز کے درمیان موجود چوک نما چبوترا جس کو عام لوگ پلازا کہتے تھے۔ عموماً غیر سیاسی ماحول کی نمائندگی کرتا۔ جہاں رات نو بجے کے بعد یار لوگ اکٹھے ہوتے اور ہر غیر نصابی موضوع پر گفتگو ہوتی۔ ہمارے یونیورسٹی میں آنے سے پہلے اسلامی جمیعت طلبہ اور قائداعظم سٹوڈینٹس فیڈریشن کے درمیان اتنی فسادات ہوئے کہ زبان زد عام ہوگیا کہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ہے تو قائد اعظم کلوزڈ یونیورسٹی۔ جنوری 1986 سے دسمبر 1987 تک متعدد بار یونیورسٹی میں جمیعت اور پی ایس ایف کے درمیان جھگڑا ہوا اور آتشیں اسلحے کا کھلا استعمال ہوا۔ میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ سرعام فائرنگ ہوتی دیکھی۔ ہوسٹل نمبر ون اور ہوسٹل نمبر ٹو میں چھپے نام نہاد طلبہ رہنماوں نے ایک دوسرے پر فائرنگ کی تو ھوسٹل نمبر تھری میں موجعد ایک طالبعلم آوارہ گولی لگنے سے زخمی ہوگیا۔ایک مرتبہ تو رمضان المبارک کے مہینے میں سحری کے وقت یونیورسٹی کی بسوں میں بھر کر طلبہ کو فیض آباد میں اتار دیا گیا ۔ میس میں طلبہ کو سحری کے لئے دہی فراہم کیا گیا تھا۔ وہاں سے میں اور میرے کلاس فیلو مظہر گیلانی راولپنڈی میں مری روڈ پر پائلٹ ہوٹل میں ایک رات رہے اور یونیورسٹی کی بندش کے باقی دن اسلامی یونیورسٹی کے ہاسٹل میں ایک دوست کے ساتھ گذارے۔ ایک اور مرتبہ یونیورسٹی بند ہوئی تو میں اپنے آبائی شہر فیصل آباد میں چلا گیا۔ اس کے علاوہ بھی فائرنگ کا تبادلہ ایک معمول رہا۔ کئی مرتبہ ہاسٹل بند ہوتے اور پڑھائی کا سلسلہ ٹوٹتا رہا۔تقریباً تیس سال بعد یونیورسٹی پندرہ دن کے لئے بند ہوئی تو یہ ساری باتیں یاد آگئیں۔ جو گڑبڑ جنرل ضیاالحق کے مارشل لا کے دور میں تھی ۔ وہی صورتحال آج بھی نظر آتی ہے۔ کم ازکم ملک کی سب سے اچھی یونیورسٹی میں تو ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے تجربے سے سبق حاصل کرنا چاہیے جہاں ایک زمانے ہر طرح کا اٹھائی گیرا اور دہشت گرد ہاسٹلز میں موجود تھا۔ ایک ریٹائرڈ جنرل وائس چانسلر بنا تو اس نے ہر چیز درست کردی۔ آج اس یونیورسٹی میں ایک سویلین وائس چانسلر کے زیر سایہ بھی امن ہی امن ہے۔ رٹ قائم کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہوگا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here