مہاتير کے ديس ميں ۔۔۔۔قسط سوم

0
3185

تحریر: محمد لقمان

بس، ميٹرو ٹرين، مونو ٹرين

12 بجے کے قريب ہوٹل ميں چيک ان ہوگيا۔ تو تکان دور کرنے کے لئے اپنے کمروں ميں چلے گئے۔ چند گھنٹے آرام کيا تو کوالالمپور شہر کي سير کے لئے سوچا ۔ فيصلہ يہ ہوا کہ اب ٹيکسي کا مہنگا سفر کرنے کي بجائے سستی پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کريں گے۔ ہوٹل سے باہر نکلے تو سن وے کليو ہوٹل سے 50 ميٹرز دور بس اسٹاپ پر پہنچ گئے۔ وہاں ايک بڑي تعداد ميں مقامي شہري خاص طور پر طلبہ و طالبات موجود تھے۔ پوچھا کہ ميٹرو ٹرين تک پہنچنے کے لئے کونسي بس موزوں رہے گي۔ تو پتہ چلا کہ 771 نمبر کي بس يوايس جے 7 اسٹيشن تک جائے گي۔ جہاں سے ميٹرو ٹرين ملے گي۔ گويا کہ لاہور جيسا نظام ہي کوالالمپور ميں موجود ہے۔  کچھ دیر کے بعد پاکستانی اسپیڈو بس کی طرح کی ریپڈ کے ایل بس نمبر 771 آ ہی گئی۔ مطلوبہ اسٹیشن کے لئے سوار ہوئے تو ڈرائیور نے ایک ملائشین رنگٹ( پاکستانی 30 روپے( فی مسافر طلب کیا۔  بس سن وے سٹی کے مختلف علاقوں سے ہوتی ہوئی یوایس جے 7 اسٹیشن پہنچ ہی گئی۔ بعد میں پتہ چلا کہ یو ایس جے کے الفاظ کا امریکہ سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ بلکہ یونائیٹڈ سبانگ جایا کا مخفف ہے۔ سیڑھیاں چڑھ کر میٹرو ٹرین جسے ملائشیا میں ایل آر ٹی یعنی لائٹ ریلوے ٹرانزٹ سسٹم  کہا جاتا ہے،  کے اسٹیشن میں داخل ہوئے۔ ۔ ایل آر ٹی کی دو لائنیں ہیں۔ جو کہ کوالالمپور شہر کے جنوب و شمال اور مشرق و مغرب  کے علاوہ مضافاتی اضلاع کو ملاتی ہیں۔ ٹرین کے لئے ٹوکن لینے کے لئے ھیلپ ڈیسک سے رابطہ کیا تو وہاں بیٹھی خاتون نے بڑی شائستگی سے بڑے نوٹ کا چینج دیا تاکہ ہمیں مشکل نہ آئے اور ایک مشین کی طرف اشارہ کیا جہاں سے ٹوکن ملنے تھے۔ لاہور کی میٹرو کی نسبت کوالالمپور کا بس اور ٹرین کا سفر کافی مہنگا ہے۔ پیٹروناس ٹون ٹاورز پر جانے کے لئے کے ایل سی سی اسٹیشن کا انتخاب کیا تو مشین نے فی کس 3 رنگٹ سے زائد فی کس رقم مانگ لی۔ 10 رنگٹس سے زائد رقم جمع کرائی تو مشین نے تین ٹوکن نگل دیے۔

ٹرین میں داخل ہوئے تو بڑی آرام دہ سیٹیں موجود تھیں۔ مگر سیٹوں کی تعداد ڈبے میں کل سواریوں کے لئے موجودہ گنجائش کی صرف 35 فی صد ہی تھی۔ گویا کہ لاہور میٹرو یا جنگلا بس اور کوالالمپور کی ٹرانسپورٹ میں ایک ہی طرح کی سہولتیں ہیں۔ ٹرین میں کسی قسم کی صنفی امتیاز یا تقسیم نظر نہیں آئی۔ ملائی مسلمان کے ساتھ بیٹھا ہوا مرد یا عورت ہندو تامل یا چینی النسل بھی ہوسکتا ہے۔ غیر ملکیوں کے خلاف بھی کوئی تعصب نظر نہیں آتا۔ گویا کہ ایک کثیر النسل معاشرہ ہے جس میں بظاہر ایک دوسرے کے خلاف کھچاو نظر نہیں آتا۔ اور یہی بات ملائشیا کی ترقی کی وجہ سمجھی جاتی ہے۔ تقریباً 20 اسٹیشنز کے بعد منزل کا اعلان ہوا تو ہم کے ایل سی سی کے اسٹیشن پر اتر گئے۔ باہر نکلنے کے بعد تھوڑا سا فیصلہ ہی طے کیا تھا کہ سامنے پیٹروناس کے جڑواں ٹاور موجود تھے۔ ایسا لگا کہ جیسے خواب مجسم ہو کر نظروں کے سامنے آگیا ہے۔

(جاری ہے(

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here