سچ یہ بھی ہے۔۔۔کب تک حالت انکار میں رہیں گے

0
1932

تحریر: محمد لقمان
کہتے ہیں کہ ایک شخص کو جنگ کے دوران تیر لگ گیا۔۔اس کی کمر سے خون ٹپکنے لگا۔ مگر وہ اس کی خوش فہمی کا اس بات سے اندازہ لگائیں کہ دوڑتے ہوئے مسلسل کہہ رہا تھا کہ خد ا کرے اسے تیر نہ لگا ہو۔ اس حالت انکار سے ایسے لوگوں کو نقصان ہی ہوتا ہے۔ فائدہ نہیں۔ اس وقت پوری دنیا کورونا وائرس کی وبا کی لپیٹ میں ہے۔ امریکہ اور کینیڈا کے علاوہ یورپ ، لاطینی امریکہ ، افریقہ، آسٹریلیا اور ایشیا کے ممالک میں تین لاکھ سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ پچاس لاکھ کے قریب افراد کے جسم میں یہ وائرس اپنی جگہ بنا چکا ہے۔ پاکستان میں بھی ہزاروں افراد بیمار ہوچکے ہیں اور سینکڑوں کی موت واقع ہوچکی ہے۔ مگر ابھی بھی ہم ایک حالت انکار ہیں۔ فیس بک پر لوگوں کے سٹیٹس دیکھیں یا بازار میں جائیں تو پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا کورونا وائرس ایک حقیقت ہے یا صرف یہودیوں یا امریکیوں کی سازش۔ ان لوگوں نے نہ تو ماسک پہنے ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی سماجی فاصلے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ اوپر سے لے کر نیچے تک ایک جیسا ہی رویہ ہے۔ یعنی اس حقیقت پر کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں کہ وائرس کا سچ مچ وجود ہے۔ حکومتی بیانات بھی اس بے یقینی کی وجہ ہیں۔ اور اسی نیم اندروں، نیم بیروں کی کیفیت میں مارچ کا پورا مہینہ گذر گیا اور جو لنگڑا لولا لاک ڈاون کیا بھی گیا۔ اس کی بین الاقوامی لاک ڈاون کے سامنے کوئی حیثیت نہیں تھی۔آج کل ہم ایک اسمارٹ لاک ڈاون کے دور سے گذر رہے ہیں۔ اس وقت موٹر سائکل پر ایک ہی خاندان کے دو افراد سوار نہیں ہوسکتے۔ مگر موٹرسائکل رکشا پر ایک دوسرے سے انجان چھ افراد بازو سے بازو جوڑ کر سفر کر سکتے ہیں۔ رہی سہی کسر بازاروں اور مارکیٹس میں بغیر ماسکس اور سیینی ٹائزر کے پر ھجوم شاپنگ سے پوری ہو رہی ہے۔ ٹی وی چینلز پر نظر آنے والی فوٹیج سے پتہ چلتا ہے کہ شاید اہل پاکستان کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ سماجی فاصلے کی کیا اہمیت ہے۔ ایسا لگتا ہے دکاندار اور خریدار ، سب لوگ ہی کسی اور ہی سیارے سے آئے ہیں۔ اس غیرسنجیدگی کو فروٖغ دینے کے لئے اہل پاکستان میں خواہ مخواہ کا ایک خبط عظمت یا میگالو مینیا پیدا کیا جارہا ہے۔ ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ پاکستانیوں میں قوت مدافعت بہت زیادہ ہے۔ اس لیے وائرس ان پر اثر انداز نہیں ہوگا۔ یورپ کے لوگ شراب بہت پیتے ہیں۔ اس لیے ان کی قوت مدافعت بہت کم ہے۔ مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جس ملک میں ملاوٹ ملی غذا بکتی ہو۔ جعلی ادویات عام ہوں اور اشیائے صرف کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے اکثر آبادی غذائی کمی کا شکار ہو۔ وہاں قوت مدافعت کیسے بڑھ سکتی ہے۔ اگر یورپ میں چھ سات فٹ قد کا شخص اس وائرس کے آگے ڈھے گیا ہے تو کم صحت والی پاکستانی کیسے اس بیماری کا سامنا کرسکتے ہیں۔ اگر کسی بھی وجہ سے بھارت، پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک میں وائرس کا شدید حملہ نہیں ہوا تو ہمیں زیادہ اطمینان سے رہنے کی ضرورت نہیں۔ خدا نہ خواستہ اس کی اگر بڑی لہر آگئی تو ہمارے پاس تو اچھے ہسپتال بھی نہیں۔ اس وقت جو وڈٖیوز لاہور کے ایکسپو سینٹر میں بنے فیلڈ ہسپتال سے باہر آ رہی ہیں۔ اس کو دیکھ کر تو بالکل بد احتیاطی کرنے کی ضرورت نہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ وائرس ابھی پتہ نہیں کتنے سال انسانوں کو برداشت کرنا پڑنا ہے۔ یاد رہے کہ پرہیز علاج سے ہر طور بہتر ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here