سفر جنوب کے۔۔۔۔قسط دوم

0
1674

کراچی سے دھابیجی، گھارو اور ٹھٹھہ
تحریر: محمد لقمان
ایرپورٹ سے نکلے تو شاہراہ فیصل پر گذرتے ہوئے یہ خیال ضرور آیا کہ لاہور کی طرح اگر کراچی پر بھی کسی نے توجہ دی ہوتی تو شہر کی سب سے اہم سڑک کی یہ درگت نہ بنتی۔ کچھوے کی طرح چلتی بے ہنگم ٹریفک کی وجہ سے سفر مزید طویل ہوگیا۔ نو بجے کے قریب سفر کے لئے روانہ ہوئے تھے اور میزبانوں نے بڑے اطمینان سے بتایا تھا کہ دو سوا گھنٹوں میں گولارچی پہنچ جائیں گے۔ مگر شاہراہ فیصل پر ایک گھنٹے سے زائد وقت خرچ ہوگیا۔ انیس سو اٹھاسی میں جب ایبٹ لیبارٹریز میں بھرتی کے بعد کراچی میں ڈیڑھ ماہ کی ٹریننگ کے لئے آیا تھا تو ہر روز پلازہ ہوٹل کینٹ سے لانڈھی جانے کے لئے شاہراہ فیصل سے گذرنا پڑتا۔ مگر اس دور کی شاہراہ فیصل بہت صاف ستھری تھی۔ کراچی میں حالات خراب ہونے کی وجہ سے ان دنوں تقریباً ہر گلی اور بازار کی نکر پر رینجرز موجود ہوتے تھے۔ اب امن و امان تو بہتر ہوا ہے۔ مگر شاہراہ فیصل اپنی روائتی خوبصورتی کھو بیٹھی ہے۔ دیواروں اور اوو ہیڈ برجز پر سیاسی نعرے لکھے دکھائی دیتے ہیں۔ شاہراہ فیصل سے آگے نیشنل ہائی وے کے ذریعے دھابیجی کا سفر بھی کوئی پرسکون نہیں تھا۔ ٹوٹی پھوٹی سڑک اور ہر کوئی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں تھا۔ دھابیجی کا قصبہ آیا تو اچانک یا د آیا کہ ہر ہفتے دس روز کے بعد اس کے بارے میں ضرور الیکٹرونک میڈیا یا اخبارات میں ایک خبر ضرور آتی ہے۔ پائپ لائن پھٹنے یا پلانٹ بند ہونے سے کراچی کو پانی کی فراہمی بند ہوگئی۔ اصل میں یہاں ایک ایک واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگا ہوا ہے جس میں دریائے سند ھ کا پانی صاف کرکے ملک کے سب سے بڑے شہر کو فراہم کیا جاتا ہے۔ دھابیجی کراچی کا حصہ نہیں بلکہ ضلع ٹھٹھہ کی تحصیل میرپور ساکرو کا ایک قصبہ ہے۔ جہاں کراچی سے قربت کی وجہ سے بہت سارے صنعتی یونٹس بھی قائم کیے جاچکے ہیں۔ اب سی پیک منصوبے کے تحت بھی دھابیجی میں سپیشل اکنامک زون بنایا جارہا ہے۔نیشنل ہائی وے پر مزید پندرہ بیس منٹ کے سفر کے بعد ضلع ٹھٹھہ کا ایک اور قصبہ آتا ہے۔ جس کا نام گھارو ہے۔ گھارو پاکستان کے سب سے بڑے ونڈ کوریڈر کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ہوا سے تیار ہونے والی بجلی کا کارخانہ لگایا جارہا ہے۔ اس کا اندازہ دوران سفر گھارو کے ایک سر راہ ریسٹورینٹ میں چائے پینے کے دوران بھی ہوا۔ ریسٹورینٹ کی عمارت ایک کھلے درے کی طرح تھی جس میں ہوا کے آر پار جانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ چائے خانے کے مالک نے بتایا کہ اگر سمندر سے ہوا آتی رہے تو کئی مرتبہ پنکھا چلانے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا ہو اور اکتوبر کا مہینہ ۔ اس کا اپنا ہی مزہ ہوتا ہے۔ قومی شاہراہ پر آدھا گھنٹہ اور سفر کریں تو ٹھٹھ کا تاریخی شہر آ جاتا ہے۔ یہاں سترھویں صدی کی شاہجہانی مسجد اور مکلی کا تاریخی قبرستان موجود ہے۔ مگر وقت کی کمی کی وجہ سے ٹھٹھہ شہر میں داخل ہونے کی بجائے سجاول کی طرف چل پڑے۔ جہاں سے آگے ضلع بدین کے قصبے گولارچی جانا تھا۔ اب سڑک خراب ہونے کی وجہ سے راستہ آہستہ آہستہ کٹ رہا تھا۔ سجاول کے قریب ایک گاوں کی مسجد میں نماز کے لئے رکے ۔ اس کے بعد ہمیں گولارچی کی طرف روانہ ہونا تھا۔ جو کہ تقریبا ً پچاس کلومیٹر کی دوری پر تھا۔ دوپہر ہونے کی وجہ سے گرمی کی شدت بھی بڑھ گئی تھی۔ مگر منزل ابھی دور تھی۔ (جاری ہے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here