خار زار صحافت۔۔۔۔قسط چھیالیس

0
2090

لالچ، لٹھا ، لائل پور
تحریر: محمد لقمان
زندگی کا ایک بڑا حصہ فیصل آباد میں گذرا ہے۔ میٹرک ایم سی ہائی سکو ل سے کیا تو ایف ایس سی پر ی میڈیکل اور بی اے کے لئے گورنمنٹ کالج فیصل آباد دھوبی گھاٹ میں چار سال گذارے۔ رضا آباد میں واقع اپنے گھر سے ہر روز وین پر سوار ہو کر پہلے امین پور بازار اور چنیوٹ بازار کے سامنے ایم سی ہائی سکو ل جاتا رہا تو بعد میں چار سال بائیسکل پر گورنمنٹ کالج تک کا تین کلومیٹر کا سفر طے کرتا رہا۔ ایبٹ لیبارٹریز ادویہ ساز کمپنی کے ساتھ چند ماہ اور بعد میں فیصل آباد گرامر سکول اور اسلامیہ کا لج فار ایجوکیشن میں بیس ماہ کی ملازمت کے بعد اپنے آبائی شہر میں ملازمت کا موقع انیس سو چورانوے کے وسط میں ملا۔ جب اے پی پی لاہور کے سینیر ایڈیٹر افتخار احمد کو فیصل آباد ٹرانسفر کر دیا گیا۔ اور ساجد علیم لاہور آگئے۔ دو ماہ کے بعد جب افتخار احمد نے اپنی گھریلو مجبوریوں کی بنا پر لاہور واپس آنا چاہا تو مجھے فیصل آباد تعینات کردیا گیا۔ یہ بطور صحافی صنعتی اور زرعی شہر میں پہلی تعیناتی تھی۔ فیصل آباد کو انیس سو ستتر سے پہلے لائل پور کے نام سے جانا چاہتا تھا اور اس کو کاروباری لوگوں میں پیسے کے لالچ اور لٹھے کی پیداوار کی وجہ سے بھی پہنچانا جاتا تھا۔ فیصل آباد تبادلے سے پہلے ستائیس جنوری انیس سو چورانوے کو نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف جینیٹک انجینئرنگ اینڈ بائیوٹیکنالوجی (نیبجی) کے افتتاح کی تقریب کی کوریج کے بھی اس شہر آنا پڑا تھا۔ افتتاح اس وقت کے صدر پاکستان سردار فاروق احمد لغاری نے کیا تھا۔ ڈاکٹر کوثر عبداللہ ملک اس ادارے کے پہلے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب سے جو تعلق بنا وہ آج چھبیس سال کے بعد بھی قائم ہے۔ تبادلے کے بعد جب میں کچہری بازار چوک میں ذیل گھر بلڈنگ میں واقع اے پی پی کے اسٹیشن دفتر پہنچا تو خلیل احمد نامی آفس بوائے نے استقبا ل کیا۔ اس نے مجھے دفتری معاملات کے بارے میں پوری طرح بتایا۔ اس کا پہلے اسٹیشن مینجر ساجد علیم سے دلی لگاو تھا۔ اس کا مجھے فیصل آباد میں مختصر عرصے کے لئے تعیناتی کے دوران اندازہ ہوتا رہا۔ ان دنوں فیصل آباد کا کوئی بھی ریجنل اخبار اے پی پی کی سروس نہیں لیتا تھا۔ فیصل آباد سے اے پی پی کا وسائل کا ذریعہ بینکوں کو فراہم کیے جانے والے کرنسی ریٹس تھے۔ جو کہ فیکس کے ذریعے موصول ہوتے اور فوٹو کاپی کروانے کے بعد بینکوں میں تقسیم کردیا جاتا۔ تقسیم کا کام خلیل احمد کے ذمے تھا جو کبھی سائکل پر اور کبھی پیدل گھنٹہ گھر کے ارد گرد واقعہ کمرشل بینکوں میں دے آتے۔ جب کبھی خلیل احمد چھٹی پر ہوتے تو مجھے بھی تقسیم کرنے کا کام انجام دینے پڑتا۔ یوں یہ دو افراد کی ٹیم اے پی پی فیصل آباد کو چلاتی رہی۔ خبر لکھنے کے لئے ایک مینول ٹائپ رائٹر موجود تھا۔ جس پر خبر ٹائپ کرنے کے بعد فیکس مشین ذریعے مواد اسلام آباد میں سینٹرل ڈیسک پہنچا دیا جاتا۔ جہاں خبر کو ملک بھر میں ٹیلی پرنٹر سے تقسیم کرنے سے پہلے اس کی نوک پلک سنواری جاتی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here