خار زار صحافت۔۔۔۔قسط انسٹھ

0
2516

سرکاری صحافت۔۔۔وذارت اطلاعات کا کنبہ
تحریر: محمد لقمان
اے پی پی میں ملازمت ملی تو پتہ چلا کہ پاکستان میں دو طرح کا میڈیا ہے۔۔۔ایک ہے سرکاری تو دوسرا ہے پرائیویٹ۔۔۔سرکاری میڈیا میں حکومت کی پالیسیوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے تو نجی شعبے کے اخبار میں سیٹھ کے منہ سے نکلا ہر حرف پالیسی ہے۔ سوائے انگریزی اخبار ڈان کے ،اخبار کا مالک ہی چیف ایڈیٹر ہوتا تھا۔ اخبارات کے علاوہ ملک میں دو بڑے خبر رساں ادارے یعنی نیوز ایجینسیز تھیں۔ ایک سرکاری چھتر چھاوں کے نیچے کام کرنے والی ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) اور دوسری نجی شعبے میں کام کرنے والی پاکستان پریس انٹرنیشنل (پی پی آئی)۔ دس بارہ سے زیادہ اردو اور انگریزی کے بڑے اخبارات تھے۔ اس کے سینکڑوں ایسے اخبارات اور میگزین تھے جو کہ اکثر کسی نیوز پیپر ہاکر کے پاس دستیاب نہیں ہوتے تھے۔ جہاں تک انیس سو نوے کی دہائی کے آغاز کی اے پی پی کا تعلق تھا۔ تو اس کا سرکار کے ساتھ تعلق بہت زیادہ واضح نہیں تھا۔پندرہ جون انیس سو اکسٹھ کو ایک ایکٹ کے تحت ایک ذمہ داری کے طور پر جنرل ایوب خان کے دور میں سرکار نے اس کا انتظام سنبھالا تھا۔ پاکستان کے قیام سے پہلے یہ ایسوسی ایٹڈ پریس آف انڈیا کے طور پر کام رہی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد صحافی ملک تاج الدین نے اس کو ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے طور پر لانچ کیا۔ مگر انیس سو ساٹھ کی دہائی میں یہ دور ایوبی میں سرکار کی میڈیا پر قبضے کرنے کی ہوس کا شکار ہوئی اور یہی وجہ ہے کہ اے پی پی تمام تر کوششوں کے کبھی بھی قومی نیوز ایجنسی نہ بن سکی۔ اس پر سرکار کا رنگ ہی غالب رہا۔ انیس سو اکہتر میں مشرقی پاکستان الگ ہوگیا تو وہاں اس نے بنگلا دیش کی نیوز ایجنسی بی ایس ایس کا روپ دھار لیا۔ شروع میں اے پی پی کے سربراہ کو جنرل مینجر کہا جاتا تھا۔ بعد میں ڈائریکٹر جنرل اور اب اس کو ایم ڈی کہا جاتا ہے۔ کارپوریشن بننے سے پہلے اے پی پی کا وزارت اطلاعات سے وہی رشتہ رہا جو کہ عموماً باہر والی کا ہوتا ہے۔ مگر اس میں ایک فائدہ بھی تھا کہ زیادہ تر مواقع پر اے پی پی کا اپنا ملازم رپورٹر یا سب ایڈیٹر کے عہدے سے ترقی کرتا ہوا ڈی جی کے اعلی ترین عہدے تک جا پہنچتا اور اپنی آزادی اور طاقت کا اظہار بھی کرتا رہتا۔ اس کی آخری مثال ایم آفتاب تھے۔ اس دور میں ایک بات بڑی قابل ستائش تھی کہ پی آئی ڈی یا وزارت اطلاعات کے لوگ اے پی پی کے صحافی پر دباو ڈالنے سے پہلے سو مرتبہ سوچتے تھے۔ اور رپورٹر کو اپنی مرضی کے مطابق خبر لکھنے کا موقع ملتا تھا۔ خیر بات ہو رہی تھی وزارت اطلاعات کے کنبے کی۔ تو اے پی پی کے علاوہ اس خاندان میں پی آئی ڈی، ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی شامل ہوتے تھے۔ کہیں پر بھی صدر مملکت، وزیر اعظم ، وزیر اطلاعات یا کسی سرکاری مہمان کی تقریب ہوتی تو ان تمام اداروں کے نمائندے وہاں موجود ہوتے۔ پی آئی ڈی کے افسر کا کام ان افراد کے ساتھ رابطہ کرنا ہوتا تھا۔ جبکہ اے پی پی کا رپورٹر اس تقریب کی خبر بناتا جو کہ پی ٹی وی اور ریڈیو سے انگریزی اور اردو میں ترجمے کے بعد نشر ہوتی۔ یہ خبر بعد میں ٹیلی پرنٹر یا کمپیوٹر سروس کے ذریعے انگریز ی اور اردو اخبارات تک پہنچتی اور چھپ جاتی۔ ایک بہت مربوط نظام تھا۔ ان چاروں اداروں کے درمیان بہت قریبی تعلقات ہوتے تھے۔ جب میں نے اے پی پی میں ملازمت کی تو مجھے اور میرے بیچ کے دیگر لوگوں کو پی آئی ڈی، ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کے اسلام آباد میں ہیڈکوارٹرز میں بریفنگ دی گئی تاکہ اے پی پی میں آنے والوں کو پتہ چلے کہ وزارت اطلاعات کے دیگر اداروں کے ساتھ کیسے مل کر چلنا ہے۔ لاہور میں تعیناتی ہوئی تو پی آئی ڈی کے بڑے دلچسپ لوگوں سے ڈیل کرنا پڑا۔ کئی رینکرز ہو کر بھی افسر بننے کی کوشش کرتے تھے تو بہت سارے ایسے افسر بھی تھے جو کہ بطور انسا ن بہت نفیس ثابت ہوئے اور ہر موقع پر مدد گار رہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here