خار زار صحافت۔۔۔قسط چوہتر

0
1511

اقتصادی تعاون تنظیم کے صحافیوں کے لئے تربیتی ورکشاپ

تحریر: محمد لقمان
چھ ستمبر انیس سو ستانوے کو جب پوری قوم یوم دفاع پاکستان منا رہی تھی، صبح سویر ے ہی اللہ تعالی نے ہمیں اولاد کی نعمت سے نواز دیا تھا۔ ہمارے گھر میں بیٹی کی شکل میں خدا کی رحمت آچکی تھی۔ ان دنوں میں جب اے پی پی سے نکالے گئے ملازمین کے مقدمات کی وجہ سے آدھا دن عدالتوں میں گذرتا اور آدھا دن رپورٹنگ کرنی پڑتی، بچی ہماری خوشیوں کا سامان بن چکی تھی۔ رات کو تھکا ہارا گھر آتا تو بیگم ننھی منی گڑیا کو میری گود میں ڈال دیتی۔ وہ گھنٹوں میرے ساتھ کھیلتی اور میرے سارے دکھ درد ختم ہوجاتے۔ والد صاحب بہت خوش تھے۔ اس موقع پر امی جی کو بہت مس کیا جو تقریباً تین سال پہلے وفات پا چکی تھیں۔ پھر اکتوبر کے آخری ہفتے میں اسلام آباد سے ایک خط آیا جس میں اے پی پی مینجمنٹ نے مجھے اقتصادی رابطہ تنظیم کے ممالک کے صحافیوں کے لئے تربیتی ورکشاپ میں شرکت کے لئے دعوت دی تھی۔ تین نومبر سے اٹھارہ نومبر تک ہونے والی اقتصادی صحافت پر ورکشاپ میں مختلف ممالک کی سرکاری خبر رساں ایجنسیز کے اکنامک رپورٹرز اسلام آباد پہنچ چکے تھے۔ میں بھی دو نومبر کو فیصل آباد سے اسلام آباد پہنچ گیا۔ ورکشاپ کے تمام شرکا کو لیاقت جمنازیم کے قریب ایڈونچر ان نامی ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا جب کہ ورکشاپ کے تمام سیشن ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ہونے تھے۔ چودہ شرکا میں سے آٹھ شرکا تاجکستان، ترکمانستان ، کرغیزستان، ترکی اور ایران کی قومی خبر رساں ایجنسیز کے نمائندے تھے جبکہ میرے سمیت چھ افراد کا تعلق اے پی پی سے تھا۔ قازقسان سے تعلق رکھنے والی ایک صحافی جو کہ پہلے سے پاکستان میں رہائش پذیر تھی۔ اس کو غیر رسمی طور پر ورکشاپ میں شریک کر لیا گیا تھا۔ ای سی او نیوز ایجنسی کے دس رکن ممالک میں سے سات ممالک کی نمائندگی تھی۔ مگر افغانستان، تاجکستان اور ازبکستان کا کوئی صحافی شریک نہیں ہوا تھا۔ ۔ ورکشاپ کے شرکا کو اسلام آباد میں بارہ نومبر کو اختتامی تقریب کے بعد پشاور، لاہور اور کراچی میں لے جایا گیا۔ اس پوری ورکشاپ کے کوآرڈینیٹر میرے بیچ فیلو عظیم احمد خان تھے۔ جو کہ آج کل اے پی پی کے ڈائریکٹر ایچ آر ہیں۔ میرے علاوہ اے پی پی سے محمد اصغر، شجاع الدین قریشی، اعجاز شاہ، راشد علی خان اور مرحوم رفیع ناصر شامل تھے۔ ورکشاپ کا افتتاح اس وقت کے وفاقی وزیر اطلاعات مشاہد حسین سید نے کیا۔ پندرہ روز کے دوران پاکستان میں مختلف شہروں میں کتنے اداروں میں گئے۔ اور کتنے مقامات کی سیر کی۔ اس کا ذکر اگلی اقساط میں تفصیل سے ہوگا۔ اس ورکشاپ میں ایرانی نیوز ایجنسی کے نمائندے محب علی دایانی سے میں چار سال کے عرصے کے بعد مل رہا تھا۔ اس سے پہلے ستمبر انیس سو ترانوے میں ان سے تہران میں ڈویلپمنٹ جرنلزم کی پندرہ روزہ ورکشاپ میں بڑی تفصیلی ملاقات ہوچکی تھی۔
(جاری ہے)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here