خار زار صحافت۔۔۔قسط سینتالیس

0
2066

علاقائی صحافت، ہر کوئی ہے باون گز کا
By Muhammad Luqman
ذیل گھر میں اے پی پی کے دفتر میں پہلے دن ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ سوائے ایک دو نامہ نگاروں کے، ہر کوئی اپنے آپ دنیا کا آخری
صحافی سمجھتا ہے۔ اس کا اندازہ ساتھ والے دفاتر سے آنے والی آوازوں اور شور وغو غا سے ہی ہوگیا۔ ایک طرف جنگ تو دوسری طرف مشرق اور امروز کے دفاتر تھے۔ رفیع غوری کا غوری نیوز ، عبدالستار جنڈھیالوی کا ایام اور پرویز پاشا کا پنجاب نیوز بھی اسی بلڈنگ میں تھا۔ سرکار کو ہر مہینے ایک محدود رقم بطور کرایہ دینا پڑتی تھی۔ شاید سوا ئے اے پی پی اور ایک آدھ کسی اور اور ادارے کے ،کرایہ بھی کوئی نہیں دیتا تھا۔ گویا کہ سب کو زعم تھا کہ ہم صحافی ہیں۔ ہمیں کون ہاتھ لگائے گا۔ مشرق کے حافظ محمد اکرام اور امروز کے مقبول لودھی کا الگ ہی گروپ تھا۔ یہ کس قسم کے لوگ تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ میرے اے پی پی کے دفتر کے چارج سنبھالنے کے چند روز بعد ہی انہوں نے بلڈنگ میں اے پی پی کے اسٹور کا تالہ توڑا اور اس پر قبضہ کرلیا۔ ان کا قبضہ میرے بات بھی برقرار رہا۔ ان دو افراد کا ساتھ دینے والوں میں ڈان اخبار کے رپورٹر مرحوم شمس الاسلام ناز بھی تھے۔ جنہوں نے کچہری بازار کے باہر ایک سرکاری بلڈنگ میں فیصل آباد پریس کلب کا دفتر بنا یا اور کئی سال تک بلا شراکت غیرے اس کے صدر رہے۔ جو لوگ اس طرح کی الٹی پلٹی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیتے تھے۔ ان میں روزنامہ مسلم کے آفتاب احمد اور پاکستان ٹائمز اور بعد میں دی نیوز کے سردار محمد اختر تھے۔ دونوں بزرگوں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ سب سے بڑے دفاتر نوائے وقت، ڈیلی بزنس رپورٹ اور خبریں کے تھے۔ جہاں پر رپورٹرز اور دیگر ملازمین کی کافی تعداد تھی۔ دیگر ریجنل اخبارات میں روزنامہ ملت اور صورتحال تھے۔ زیادہ تر صحافی جز وقتی تھے۔ کوئی کسی نہ کسی ٹیکسٹائل ایسوسی ایشن کا پی آر او تھا تو کسی کا سکول یا اور کوئی کاروبار تھا۔ تبھی ان کو بہت کم پریشانی ہوتی تھی کہ اگر اخبار کی نوکری چلی گئی تو کیا ہوگا۔ میری ہمسائگی میں واقع اخبار کے رپورٹر کی تنخواہ تو ان دنوں صرف بارہ سو روپے تھی۔مگر وہ اپنے چار ملازموں کو اڑتالیس سو روپے دیتے تھے۔ ابھی تک سمجھ نہیں آتا کہ ان کے پاس کیا جادو تھا۔ ایک دفعہ مجھے بڑی عجیب صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک اخبار فروش مولوی امین میرے دفتر میں اخبارات فراہم کرتے تھے۔ کئی روز تک میرے پاس آتے رہے۔ اخبارات دیتے اور چلے جاتے۔ میں نے اپنے مزاج کے مطابق کبھی اضافی بات نہ کی۔ ایک دن مجھے کہنے لگے کہ شائد آپ کو میر ی اصلی حیثیت کا پتہ نہیں۔ اس لیے آپ زیادہ لفٹ نہیں کراتے۔ میں نے اپنی کوتاہی کا اعتراف کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ شام کے اخبار صورت حال کے چیف ایڈیٹر اور مالک بھی ہیں۔ اس کے بعد ہر آنے جانے والے شخص کا خیال رکھتا۔ کیا معلوم یہ بھی کسی اخبار کا مالک ہو۔ فیصل آباد میں اکثر پریس کانفرنسز کچہری بازار میں واقع جیلوس ریسٹورینٹ میں ہوتیں۔ کبھی کبھار کسی انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کے لئے زرعی یونیورسٹی ، ایوب ایگریکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا سیرینا ہوٹل میں جانا پڑ جاتا۔ مگر میری ہمیشہ کوشش ہوتی کہ گھر پر اپنی ماں کے ہاتھ کا کھانا کھاوں۔ صرف انہی کو ہی پتہ تھا کہ مجھے کیسا کھانا اچھا لگتا ہے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here