نواز شریف پھر دوراہے پر

0
3107
Conflict between Nawaz Sharif and former Pres Ghulam Ishaq Khan in 1993

تحریر: محمد لقمان

چوبیس سال پہلے وزیر اعظم نواز شریف کا ملاکھڑا اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان سے پڑا تھا۔ ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم کے مابین تعلقات میں کھٹاس آئی تو آئین کے آرٹیکل 58 ٹو بی کی تلوار چل گئی۔ صدر نے 18 اپریل 1993 کو قومی اسمبلی اور نواز شریف کی کابینہ کو تحلیل کردیا۔ 1990 میں غلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کیا تو انہوں نے زبانی ردعمل دکھا کر فیصلہ تسلیم کرلیا۔ مگر نواز شریف نے فیصلے کو تسلیم کرنے کی بجائے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ تقریباً پانچ ہفتے کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے 26 مئی 1993 کو نواز شریف کی حکومت اور قومی اسمبلی کو بحال کردیا۔ اور قوم سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے اعلان کیا کہ وہ ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔ مگر ان کے لئے ایسا کرنا ممکن نہ ہوسکا۔ اس زمانے کے آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ کے دباو پر18 جولائی 1993 کو نواز شریف اور صدر غلام اسحاق خان کو اپنے اپنے عہدے چھوڑنے پڑے۔ اس وقت بھی کہا گیا تھا کہ جمہوریت کے استحکام کے لئے صدر اور وزیر اعظم کو گھر بھیج دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں ان کے تعلقات آرمی چیف جنرل پرویز مشرف سے بگڑے۔

12 اکتوبر 1999 کو نواز شریف نے مشرف کو نوکری سے فارغ کیا تو جواباً اس نے نواز شریف کی حکومت کو ختم کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور تقریباً نو سال بلا شرکت غیرے ملک پر حکومت کی۔ نواز شریف کے تیسرے دور حکومت کے چار سال گذرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر دوراہہ آگیا ہے۔ اس بار ان کے زوال کا باعث پانامہ پیپرز بنے ہیں۔ جن کے انکشافات کے مطابق وزیر اعظم نوازشریف اور ان کی اولاد نے بیروں ملک اربوں روپے کی جائدادیں بنائی ہوئی ہیں۔ سپریم کورٹ کے حکم پر بننے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے تمام تر تحقیقات کے بعد وزیر اعظم اور ان کے خاندان کو مالی بے ضبطگیوں کا مرتکب پایا ہے۔ 10 جولائی کو جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے کے بعد نواز شریف پر حزب اختلاف اور وکلا تنظیموں کی طرف سے استعفی کے لئے دباو بڑھ گیا ہے۔ چوبیس سال کے بعد ایک بار پھر وزیر اعظم نوازشریف دوراہے پر ہیں۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے کئی دن بعد بھی وزیر اعظم استعفی نہ دینے کے فیصلے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔وفاقی کابینہ کے حالیہ اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ وہ کیوں ’’جمہوریت فروش سازشی ٹولے کے کہنے پر استعفیٰ دے دیں؟‘
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے وزرا اور دیگر عہدیدار پہلے ہی ’جے آئی ٹی‘ کی رپورٹ مسترد کر چکے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس بار مقتدر ادارے کافی حد تک صورتحال کو پیشہ ورانہ طریقے سے دیکھ رہے ہیں۔ اب یہ نواز شریف کی سیاسی بصیرت پر منحصر ہے کہ اپنے سیاسی حریفوں کو پچھاڑ کر اپنا اقتدار بر رکھ پائیں گے یا نہیں۔ اسی طرح اب ان کو سپریم کورٹ میں بھی جے آئی ٹی کی تحقیقات کو غلط ثابت کرنا ہوگا جو کہ بظاہر بہت مشکل نظر آ رہا ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہے کہ ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے کتنے پرندے دوسری سیاسی جماعتوں کی چھتر چھاوں میں چلے جاتے ہیں۔ اگر ان کی جماعت مزید کئی ہفتے ٹوٹ پھوٹ سے بچ گئی تو شاید نواز شریف کی رخصتی کے بعد بھی ن لیگ کی حکومت قائم رہ سکے۔ ورنہ ایک اور پیپلزپارٹی پیٹریاٹ اور قائداعظم مسلم لیگ بن سکتی ہیں۔ جن سے نجات حاصل کرنے کے لئے جمہوری طاقتوں کو دوبارہ جدو جہد کرنی پڑے گی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here