خار زار صحافت۔۔۔۔قسط باون

0
1957

ملتان میں کر لیا بسیرا

تحریر: محمد لقمان

ملتان کے میڈیا سے تعارف کے بعد اب ضروری تھا کہ رہنے کے لئے گھر کا بھی انتظام کیا جائے۔ اس کے لئے میں نے مقبول حسین سے بات کی۔ انہوں نے ڈیرہ اڈہ کے ساتھ سنگ میل اخبار والی گلی میں اوپر کی منزل پر ایک پورشن ڈھونڈا۔ مکان کے مالک عاشق حسین سے ملایا۔ اس صاحب کو صرف سرائیکی زبان پر دست رس حاصل تھی اور میں سرائیکی کے ایک دو فقروں کے علاوہ کچھ نہیں جانتا تھا۔ مکان کا کرایہ ایک ہزار روپیہ طے ہوا جس میں بجلی کا بل بھی شامل تھا۔ کرایہ اس وقت میری تنخواہ کا تقریباً دسواں حصہ تھا۔ اس لیے دل کو اطمینا ن سا ہوگیا۔ مگر میں بھول گیا تھا کہ ملتان میں گرمی تو نومبر تک جاتی ہے۔ ابھی تو صرف ستمبر کا ستمگر مہینہ تھا۔ اس کا اندازہ مجھے رات کے وقت ہی ہوگیا۔ دفتر سے جب خوشی خوشی گھر گیا اور سونے کے لئے جب چار پائی پر لیٹا تو پنکھے نے گرم ہوا پھینکنا شروع کردی۔ اس رات کے بیشتر حصے میں نیند نہ آئی۔ صبح سویرے فجر کی اذان پر اٹھ گیا۔ نماز پڑھی اور آٹھ بجے کے قریب دفتر پہنچ گیا۔ ابھی رات کا چوکیدار ہی وہاں موجود تھا۔ وہ بڑا حیران ہوا کہ نیا اسٹیشن مینجر صبح سویرے ہی دفتر پہنچ گیا۔ میں اپنے کمرے میں بیٹھ کر دفتر کے معاملات اور خبروں کے بارے سوچنے لگا۔ آہستہ آہستہ سارا عملہ آگیا۔ اس دوران میں نے دفتر کا اسٹور روم دیکھا تو وہ پرانے اخبارات سے بھرا پڑا تھا۔ میں نے ایڈمن اسسٹنٹ سے پوچھا کہ اخبارات کا کیا کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے اسٹیشن مینجر ردی کو دو تین ماہ کے بعد بعد بیچ دیتے تھے۔ میں نے اگلا سوال کیا کہ اس پیسے کا کیا کرتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ ادھر ادھر خرچ کردیتے ہیں۔ اگلے روز ہی ردی بیچ دی گئی۔ اس سے جو رقم آئی۔ اس کا ایک چولہا اور چائے کے برتن خرید لیے گئے۔ یوں مہمانوں کے لئے بازار سے گندی مندی چائے لانے کا سلسلہ رک گیا۔ اب مسئلہ یہ تھا کھانا کہاں سے کھایا جائے۔ مجھے بتایا گیا کہ ڈیرہ چوک میں ٹیسٹی ریسٹورینٹ ہے۔ وہاں مناسب قیمت میں صاف ستھرا کھانا مل جاتا ہے۔ یوں اگلے دو مہینے کے قیام میں دوپہر اور شام کو میرا کھانا ٹیسٹی ریسٹورینٹ سے ہی آتا رہا۔ کبھی کبھا ر میں خود بھی جا کر کھا لیتا۔ ملتان کی اتنی ٹھنڈی اور سست زندگی تھی کہ شام ڈھلتے ہی سڑکوں پر ٹریفک بہت کم رہ جاتی۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں سالہا سال گذارنے والے شخص کے لئے یہ مشکل ایام تھے۔ اس سے تو فیصل آباد کی زندگی زیادہ تیز تھی۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی کے لئے دن میں کتنی خبریں دی جاسکتی تھیں۔ چند ہینڈ آوٹس ڈی جی پی آر سے آجاتے۔ کچھ پریس ریلیزز پی آئی ڈی جاری کردیتا۔ ان میں سے جو قابل اشاعت ہوتیں ۔ ان کو ہی میں آگے اسلام آباد بھیج دیتا۔ کبھی کبھار کوئی قتل ہوجاتا یا کوئی اور جرم ہوتا تو اس کی خبر بھیج دیتا۔ گویا کہ مختلف محکموں میں جا کر ہی خبر ڈھونڈی جاسکتی تھی۔ مختلف محکموں میں جانے سے پہلے میں نے ملتان شہر کو دیکھنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس کے لئے مقبول حسین کی مو ٹرسائکل پر ملتان کے اندرون میں النگ کے علاقے میں گیا۔ جہاں زیادہ تر روہتک حصار سے آئے لوگ آباد تھے۔ کئی علاقوں میں کپڑا بننے کی صنعت سے منسلک انصاری برادری کثرت میں تھی۔ گوشت کے کارووبار سے منسلک قریشی بھی ہزاروں کی تعداد میں موجود تھے۔ گویا جنوبی پنجاب کی سرائیکی بیلٹ کے سب سے بڑے شہر میں سرائکی بولنے والے اقلیت میں تھے۔ حرم گیٹ، پاک گیٹ اور بوہڑ گیٹ کے علاوہ صوفی بزرگوں۔۔۔ شاہ رکن عالم اور بہاوالدین کے مزارات ، قاسم باغ اور دمدمہ پر بھی جانے کا موقع ملا۔ ایک مرتبہ چوک بازار میں ن لیگ کے جلوس کی کوریج کے لئے گیا تو زندگی میں پہلی مرتبہ آنسو گیس بھی برداشت کی۔ اگر ملتان کا کوئی علاقہ مجھے پسند آیا تو وہ کینٹ کے علاقے میں فورٹ لیک تھی۔
(جاری ہے)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here