خار زار صحافت۔۔۔قسط پینسٹھ

0
1651

میں نے اے پی پی کو لٹتے دیکھا
تحریر: محمد لقمان
اے پی پی میں پہلی مرتبہ ایسا نہیں ہوا تھا کہ ادارے کے کسی سربراہ یا افسر نے اپنے خاندان یا علاقے کے لوگوں کو نوکری سے ناجائز طور پر نواز ا ہو۔ ابھی بھی اے پی پی میں درجنوں ملازم موجود ہیں۔ جن کے بڑوں کو انیس سو ستر اور اسی کی دہائی میں اے پی پی میں بھرتی کیا گیا بعد میں ریٹائر ہونے سے پہلے وہ اپنی اولاد کو بھرتی کرا گئے۔ اسی طرح ترقی اور کیڈر کی تبدیلی کے بھی کوئی قواعد و ضوابط نہیں تھے۔ میٹرک پاس ٹیلی پرنٹر آپریٹر آیا اور تیس سال کے بعد ڈائریکٹر کے طور پر ریٹائر ہوا۔ ڈرائیور کی تنخواہ بڑھتے بڑھتے کسی سینیر جرنلسٹ سے بھی بڑھ جاتی تھی۔ اپنی ملازمت کے دوران میں نے ایک ایسے ٹیلی پرنٹر آپریٹر کو بھی دیکھا جو بار بار موو اوور کے بعد گریڈ انیس کے برابر پہنچ گیا تھا۔ مگر بھرتیوں کا یہ عمل بہت سست تھا۔ اظہر سہیل کے ڈی جی بننے اور چوہدری رشید کے ای ڈی مقرر ہونے کے بعد تو ایک دم ادارے میں ملازمین کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی۔ فیصل آباد کے اسٹیشن پر ایک رپورٹر اور ایک نائب قاصد ہوتا تھا۔ مگر انیس سو چھیانوے اور ستانوے میں بھرتیوں کی وجہ سے تعد اد بیس تک پہنچ گئی۔ ان میں زیادہ تر افراد ان افسران کے رشتہ دار تھے یا جاننے والوں کی اولاد تھے۔ فیصل آباد کے علاوہ نارنگ منڈی سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد کی صرف لاہور کے بیورو آفس میں بھرتی ہوئی۔ اسی قسم کی کیفیت کراچی سے لے کر اسلام آباد تک تھی۔ اس کے علاوہ اس دور میں وزارت اطلاعات کے دیگر افسران نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور اپنے کئی عزیز و اقارب اے پی پی میں بھرتی کرادیے۔ یونین کے بھی کئی عہدے داران نے بھی اس موقع سے فائدہ اٹھایا۔ بھرتی کرنے کے لئے کئی ایسی آسامیاں پیدا کی گئیں جن کا پہلے وجود ہی نہیں تھا۔ رورل اور ڈسٹرکٹ کارسپانڈینٹس کے نام پر ملک بھر میں بیسیوں افراد کی بھرتی ہوئی۔ جن میں سے بہت ساروں کو بعد میں لاہور اور دیگر بڑے شہروں کے دفاتر میں ٹرانسفر کردیا گیا۔ ایک دن مجھے اسلام آباد ہیڈ آفس سے فون آیا کہ ہم ایک پی تھری کمپیوٹر فیصل آباد آفس بھیجنا چاہتے ہیں۔ میں بڑا خوش ہوا کہ چلو ٹائپ رائٹر کا لوہا کوٹنے سے نجات ملے گی۔ مگر جونہی کمپیوٹر پہنچا تو ساتھ ہی ایک شخص کا بطور کمپیوٹر آپریٹر تعیناتی کا خط بھی پہنچ گیا۔ گویا کہ کمپیوٹر دینے کا مقصد ایک نئی آسامی پیدا کرنا تھا۔ اسی طرح ایک دن ایک شخص فیکس آپریٹر کا اپائنٹمنٹ لیٹر لے کر پہنچا ۔ دیسی حلیے کا بندہ تھا ۔ لگتا نہیں تھا کہ کبھی اس نے فیکس مشین بھی دیکھی ہوگی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ زندگی میں کبھی فیکس مشین دیکھی یا استعمال کی ہے۔ تو اس کا جواب نفی میں تھا۔ میں نے پوچھا کہ مشین چلا لو گے تو اس نے کہا کہ اگر آپ نے سکھا دیا تو چلا بھی لوں گا۔ اب کچہری بازار کے کونے پر موجود اے پی پی کے دفتر میں اتنی جگہ اور کرسیاں نہیں تھیں کہ سب لوگ ایک وقت میں بیٹھ سکتے۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ شفٹس میں ڈیوٹی کردی گئی۔ مگر اس کے باوجود بھی ایک وقت میں دس افراد چار کرسیوں پر نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ اسی دوران ساجد علیم بھی واپس فیصل آباد آگئے تھے۔ ان کی واپسی اس شرط پر ہوئی تھی وہ اسٹیشن مینجر نہیں بنیں گے اور میرے ماتحت کام کریں گے۔ ایک اور فرد کے آنے کے بعد دفتر میں جگہ اور کم ہوگئی۔ ہیڈ آفس سے ایک دن فون آیا کہ ایک نیا دفتر ڈھونڈا جائے اور دفتر ستیانہ روڈ پر ہی ہونا چاہیے۔ ستیانہ روڈ پر دفتر ڈھونڈنے کی بھی ایک خاص وجہ تھی ۔ ایک دس مرلے کے گھر کا نچلا پورشن بٹالہ کالونی میں ڈھونڈا گیا اور اس میں منتقلی کے لئے تیاریاں شروع ہوگئیں۔ خطرہ یہ تھا کہ اگر دفتر بڑا ہوا تو مزید بھرتیاں ہوں گی۔ میں اور ساجد علیم صرف سوچ ہی سکتے تھے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here