مہاتير کے ديس ميں ۔۔۔قسط چھ

0
2820
rpt

تحرير: محمد لقمان

صحافی بنا سائنسدان

بائيو ٹيکنالوجي کيسے انساني زندگي پر اثر انداز ہوتي ہے۔۔ اس کے بارے ميں ترکي کے ممتاز بائيوٹيکنالوجسٹ سليم جيتنر نے ليکچر ديا۔ 61 سالہ ماہر ترکي کے خوبصورت ترين شہر استنبول کے رہائشي ہيں۔ بڑي سادي طبيعت کے مالک سليم جيتنر نے ابھي تک شادي نہيں کي اور نہ ہي مستقبل ميں ايسا ارادہ رکھتے ہيں۔ سبانجي يونيورسٹي ميں بائيوٹيکناجي شعبے کے سربراہ ہيں۔ بہت سادہ طريقے سے مشکل ترين موضوع سمجھانے ميں ان کو ملکہ حآصل ہے۔ پہلے تو انہوں نے زراعت کے شعبے میں روائتی بریڈنگ کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔

smartcapture

بعد میں زرعی بائیوٹیکنالوجی کی مختلف اصطلات پر روشنی ڈالی تو پتہ چلا کہ جینیٹک انجینئرنگ کے ذریعے فصلوں اور جانوروں کے خواص میں تبدیلی انسان کے لئے فائدہ مند ہے نقصان دہ نہیں۔ موناش یونیورسٹی کے بنگالی پروفیسر صادق الرحمان نے  ایک پودے میں دوسرے پودے کے ڈی این اے کی منتقلی کے بارے میں پریزینٹیشن دی۔

rpt

آسٹریلوی یونیورسٹی موناش کا کوالالمپور کیمپس بائیو ٹیکنالوجی کے شعبے میں بہت آگے ہے۔ ورکشاپ کے شرکا کو پانچ گروپس میں تقسیم کرکے بائیو ٹیکنالوجی لیبارٹری میں لے جایا گیا۔ لیبارٹری میں چاول کی جاپانی قسم کی ٹرانسفرمیشن ہورہی تھی۔ میرے گروپ کے سربراہ پروفیسر کریگ کارمک نے سوال کیا کہ کوئی ایسا شخص ہے جس نے کبھی بھی ڈی این اے کی منتقلی نہ کی ہو۔ گروپ میں صرف ہی غیر سائنسدان تھا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ آپ ہی چاول کی قسم جاپانیکا کے سیلز یعنی کیلس میں دوسری قسم کے ڈی این اے منتقل کریں گے۔ بڑا انکار کیا مگر گروپ کا سربراہ اڑ گیا۔ یوں مجھے آدھے گھنٹے کے لئے سائنسدان بننا پڑا۔ دستانے پہنے اور چمٹی کی مدد سے ایک اور قسم کے پودے کا مواد جاپانی چاول کی قسم میں منتقل کرنے کا عمل کیا۔ تقریباً 35 سال کے بعد لیبارٹری میں کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ جھجھک کر پیٹری ڈش کو ہاتھ لگایا۔ اگر ایسا پاکستان میں ہوتا تو میری ہر غلطی پر طعنے دیے جاتے۔ مگر میری اس وقت تک سب نے حوصلہ افزائی کی جب تک کہ ٹرانسفرمیشن کا عمل مکمل نہیں ہوگیا۔ کیا معلوم کہ جب چاول کی اس قسم کے جینیائی خواص تبدیل ہوں تو شائد اس میں میرا بھی حصہ ہو۔ موناش یونیورسٹی کے دورے کے دوران ہمیں مختلف ممالک کے بائیوٹیکنالوجی ماہرین سے ملنے کا موقع ملا۔  ہر کوئی باون گز کا نکلا۔ کسی نہ کسی جینیاتی انجینرنگ میں وہ کوئی نہ کوئی کارنامہ انجام دے چکا تھا۔ ملائشیا کی مختلف یونیورسٹیوں سے آئے بھی کئی سائنسدان تھے۔ جن میں ڈاکٹر جسنی بن صابری، ڈاکٹر جیا اور ڈاکٹر دھنراج سے اچھی خاصی دوستی ہوگئی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here