سچ یہ بھی ہے۔۔۔۔ خبر اور خواہش

0
3633
Pakistan's media

محمد لقمان
مشہور ہے کہ ايک سکول کے استاد کے پيٹ ميں درد ہوا تو اس نے اپنے ايک شاگرد کو بازار ميں مولی لينے بھيجا۔ شاگرد بہت دور کی سوچ والا تھا۔۔اس نے سوچا کہ اگر استاد کو آرام نہ آيا تو بہت برا ہوگا۔ اس نے مولی کے ساتھ ميڈيکل اسٹور سے دوائی بھي لے لی۔ دوائی خريدنے کے بعد سوچا کہ ڈاکٹر کو بھی ساتھ لے لينا چاہيے تاکہ جلد سے جلد افاقہ ہوجائے۔
ڈاکٹر کو ليا تو اس کے زرخيز ذہن ميں خيال در آيا کہ اگر دوائی سے آرام نہ آيا اور استاد مکرم کی موت ہوگئی تو اس کو نہلانے دھلانے اور کفنانے کے لئے بھي کوئی انتظام ہونا چاہيے تو اس نے ملا کا بھی انتظام کرليا۔ چونکہ شاگرد بہت زيرک تھا۔ اس نے سوچا کہ استاد تو گھر پر اکيلا ہی رہتا ہے کيوں نہ بين کرنے واليوں کو بھی ساتھ لے ليا جائے تاکہ کوئی تو ايک عظيم استاد کا سوگ منا سکے۔ اس نے بين کرنے واليوں سے پيشگی طے کرليا کہ جونہی اس کے رونے کی آواز آئے تو وہ بين ڈالنا شروع کرديں۔
قصہ مختصر کہ وہ اپنے ساتھ فوج ظفر موج لے کر استاد کے گھر پہنچا۔ استاد نے تمام افراد کو ساتھ لانےکی وجہ پوچھی تو شاگرد نے اپنے تمام خدشات سے آگاہ کرديا۔ استاد يہ سنتے ہی آگ بگولا ہوگيا اور اس نے زناٹے کا تھپڑ شاگرد رشيد کے چہرے پر جڑ ديا۔ شاگردکی چيخ نکلی تو ساتھ آئی عورتوں نے بين ڈالنے شروع کرديے۔۔ہمسائے آگئے ۔۔يوں ايک زندہ شخص کے لئے سوگ کا آغاز ہوچکا تھا۔ پاکستاني ميڈيا پر بھي ایسی کہانی ہر روز دہرائی جاتی ہے۔ ٹي وي کي سکرين پر کسي شخصيت کے بارے ميں ايک ٹکر آتا ہے۔ اس کے بعد اس ٹکر پر رپورٹر کا بيپر ہوتا ہے۔ جس ميں وہ ايسي تفصيلات بيان کرديتا ہے۔ جس کے بارے ميں صرف اس شخصيت اور خدا کو ہي پتہ ہوتا ہے۔ ايک چينل کي ديکھا ديکھي ديگر چينلز بھي ميدان ميں آجاتے ہيں۔ اور کہاني کے ايسے ايسے رخ سامنے آتے ہيں۔ جن کے بارے ميں کوئي صاحب عقل اور ذرا سے علم کا مالک شخص سوچ بھي نہيں سکتا۔ مگر ايک دوسرے سے آگے نکلنے کے چکر ميں اينکرز تو بھارتي چينل اسٹار پلس کي کسی کہاني کي پانی میں مدھانی چلاتے رہتے ہیں۔۔ بالآخر اس خبر کي متاثرہ فريق کي طرف سے ترديد آجاتي ہے۔ اور ٹي وي سکرينوں سے وہ خبر ايسے غائب ہوجاتي ہے جيسے ہم لوگ بچپن ميں سليٹ يا تختي سے پورنے مٹا ديا کرتے تھے۔ سب سے خوفناک بات يہ ہے کہ غلط خبر دينے پر سزا بالکل نہيں ملتي۔ ايسا ماضي ميں نہيں ہوتا تھا۔ غلط خبر دينے والے کو سزا ضرور ملتي تھي۔ يہي وجہ ہے کہ اس زمانے ميں لوگ خبر پر يقين کرليتے تھے۔ مگر اب ميڈيا کي ساکھ ميں آہستہ آہستہ کمي ہي آتي جارہي ہے۔ اگر ميڈيا نے خود خبر اور خواہش ميں فرق محسوس نہ کيا تو رہا سہا اعتبار بھي جاتا رہے گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here