خار زار صحافت۔۔۔۔قسط اٹھائیس

0
2639

نواز شریف حکومت کی برطرفی اور بحالی

تحریر: محمد لقمان

اپریل 1993 تک پاکستان میں سیاسی صورت حال بہت بگڑ چکی تھی۔  اپوزیشن رہنما بے نظیر بھٹو نے بھی نواز شریف حکومت پر اپنا دباو بڑھا دیا تھا۔ مگر وزیر اعظم کے لئے  زیادہ تر مشکلات ایوان صدر سے آرہی تھیں۔ غلام اسحاق خان کے داماد انور سیف اللہ کو وفاقی کابینہ کا حصہ بنانے کے باوجود بھی معاملات میں بہتری نہیں آئی تھی۔ نئے آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ کا وزن بھی وزیر اعظم کی بجائے صدر کے پلڑے میں نظر آرہا تھا۔ ان حالات میں بھی نواز شریف نے غلام اسحاق خان سے مفاہمت کرنے کی بجائے ان سے محاذ آرائی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اسی دوران ایوان صدر نے  آئین میں آٹھویں ترمیم کے تحت ملنے والے اختیارات استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ مگر اس کی کسی کو بھی کانوں کان خبر نہیں ہونے دی تھی۔ مگر وفاقی کابینہ سے وزرا کے استعفوں کے بعد صورت حال میں تبدیلی کا ادراک ہونا شروع ہوگیا تھا۔ 18 اپریل کی صبح صدر اسحاق خان کے داماد اور پیٹرولیم کے وزیر انور سیف اللہ لاہور آئے تو ایک ہوٹل میں ایک تقریب سے خطاب کیا۔ جب ان سے  صحافیوں نے پوچھا کہ کیا وہ استعفی دے رہے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ استعفی کیوں دیں گے۔ وہ تو نواز شریف کے ساتھ وفا دار ہیں۔ مگر سہہ پہر کو اسلام آباد پہنچنے کے بعد انور سیف اللہ نے وفاقی کابینہ سے استعفی دے دیا۔ اور اسی شام کو غلام اسحاق خان نے آئین کے آرٹیکل اٹھاون ٹو بی کو استعمال کرتے ہوئے قومی اسمبلی کو تحلیل کردیا اور نواز شریف اور ان کی کابینہ کو گھر بھیج دیا۔ یہ اختیار غلام اسحاق خان نے پہلی مرتبہ استعمال نہیں کیا تھا۔ بے نظیر بھٹو کو 1990 میں اسی قانون کے تحت معزول کیا گیا تھا۔ مگر بے نظیر بھٹو کے برعکس نواز شریف نے فیصلہ تسلیم کرنے کی بجائے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ نواز شریف کی جگہ راجن پور سے تعلق رکھنے والے بلخ شیر مزاری کو 19 اپریل کو نگران وزیر اعظم مقرر کردیا گیا تھا۔ تقریباً پانچ ہفتے کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے 26 مئی 1993 کو نواز شریف کی حکومت اور قومی اسمبلی کو بحال کردیا۔ اس فیصلے پر بے نظیر بھٹو نے بہت تنقید کی اور اسے روپے پیسے کی چمک کا نتیجہ قرار دیا۔ چیف جسٹس نسیم حسن شاہ اس بینچ کے سربراہ تھے جس نے نواز شریف کی حکومت کو بحال کیا تھا۔ نواز شریف حکومت کی بحالی کے بعد جسٹس نسیم حسن شاہ لاہور میں ایک تقریب میں شرکت کے لئے آئے تو صحافیوں نے ان کے فیصلے پر بے نظیر بھٹو کی تنقید اور اسے چمک سے تعبیر کرنے پر سوال کیا تو چیف جسٹس نسیم شاہ نے کھانے کی میز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی مہین آواز میں کہا کہ آپ دہی بھلے کھائیں اور وہاں سے چل دیے۔ بحالی کے بعد نواز شریف نے قوم سے خطاب کیا اور اعلان کیا کہ وہ کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔ مگر اگلے دو ماہ میں ملک میں اتنی سیاسی افراتفری آئی کہ فوج کے سربراہ جنرل عبدالوحید کاکڑ کو مداخلت کرنا پڑی اور 18 جولائی کو صدر مملکت غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف دونوں کو گھر جانا پڑا۔ یوں نواز شریف کا پہلا دور حکومت اپنے انجام کو پہنچا۔ نواز شریف اس کے بعد بھی سیاست میں آتے جاتے رہے ۔ مگر غلام اسحاق خان اس کے بعد گوشہ نشین ہو گئے اور 2006 میں وفات پاگئے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here