خارزار صحافت۔۔۔۔قسط اکیس

0
2568

موسمیاتی صحافت

جب میں اے پی پی کے لاہور بیورو میں آیا تو اس وقت محمود احمد خان جو کہ بعد میں میک لودھی کے نام سے مشہور ہوئے، موسم کی رپورٹنگ کرتے تھے۔ ان کو انگریزی زبان پر واقعی ملکہ حاصل تھا۔ مگر چونکہ وہ اب ادھیڑ عمر ہوچکے تھے۔ اس لیے بھاگ دوڑ ان کے بس کی بات نہیں تھی۔  اس لیے موسم کی رپورٹنگ کے لئے بھی مجھے جز وقتی ذمہ داری دے دی گئی۔ اب ہر روز صبح شام لاہور ایرپورٹ پر قائم موسمیاتی دفتر میں موجود ڈیوٹی فورکاسٹ آفیسر سے فون پر بات ہوتی۔ ان ڈی ایف او میں محمد ریاض اور اجمل شاد بھی شامل تھے۔ محمد ریاض تقریباً 27 سال کے بعد اپنے محکمے کے ڈائریکٹر جنرل بن گئے ہیں جبکہ اجمل شاد لاہور میں ہی ڈائریکتر ہیں۔ ایرپورٹ سے موسم کی صورتحال کے بارے اعداد و شمار حاصل کرنے کے بعد ان کو خبر کے قالب میں ڈال دیتا۔ 1992 کا مون سون آیا تو ہر روز ڈائریکٹر میٹ عبدالمجید کی بریفنگ کی کوریج کے لئے ہر روز جیل روڈ پر قائم فلڈ فورکاسٹنگ سینٹر جانا پڑتا۔ پاکستان کے دریاوں میں بہاو اور سیلاب کی اقسام کے بارے میں آگاہی ہوئی۔ انہی بریفنگز کے دوران اس وقت مرحوم اختر حیات اور روزنامہ جنگ سے اب تک منسلک زاہد علی خان سے ملاقات ہوئی۔ اختر حیات اپنی ہلکی پھلکی گفتگو اور پنجابی جگتوں کی وجہ سے ہر محفل کی جان جانے جاتے تھے۔ عبدالمجید صاحب جیسے زاہد خشک بھی زیر لب مسکرائے بغیر نہ رہتے۔ درمیانی قامت کے عبدالمجید نہ صرف ایک اچھے ماہر موسمیات تھے، بلکہ اپنے حسن اخلاق کی وجہ سے میڈیا میں مقبول تھے۔ چونکہ اس وقت آزاد الیکٹرانک میڈیا نہیں تھا۔ اس لیے کبھی کبھار ان کی شکل پی ٹی وی پر ہی نظر آتی۔ اس زمانے میں بھی بریفنگ میں بہت زیادہ انگریزی اور اردو میڈیا نہیں آتا تھا۔ زیادہ تر اخبارات اے پی پی کی خبروں پر ہی انحصار کرتے تھے۔ اس لیے مجھے خبر لکھتے ہوئے بہت زیادہ احتیاط کا خیال رکھنا پڑتا تھا۔ اگلے دن جب متعدد انگریزی اور اردو اخبارات میں خبر چھپتی تو ایک عجب سی کامیابی کا احساس ہوتا۔ 1992 کا مون سون پاکستان کے لئے بہت مشکل وقت ثابت ہوا۔ ساون کے مہینے میں تو زیادہ بارش نہیں ہوئی مگر بھادوں میں اتنی بارش ہوئی کہ ملک کے تمام دریا خصوصاً چناب اور جہلم بپھر گئے۔ ان دریاوں پر کلاوڈ برسٹ کے اتنے واقعات ہوئے کہ ایک ریلے کے بعد دوسرا ان مغربی دریاوں میں تقریباً ہر روز داخل ہوتا۔ جس کی وجہ سے ہیڈورکس کا ڈھانچہ خطرے میں پڑ گیا۔ اس لحاظ سے 1992 کا سیلاب جو کہ میرے صحافتی کیریر کی پہلی بڑی موسمیاتی کوریج تھی، نے میرے مستقبل میں صحافت کو نئی جہت دے دی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here